جن لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول
اور امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لیے مہدی ہونے کے جھوٹے دعوے کیے
ان کی خاصی تعداد ہے، جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
ایران کے محمدعلی باب اور بہاء اللہ شیرازی ، جنہوں نے
بہائی مذہب کی بنیاد ڈالی اور ان کے پیروکار دنیا
کے مختلف خطوں میں موجود ہیں اور امریکہ کے ماسٹر فادر محمد اور
عالیجاہ محمد ، جن کا مذہب” نیشن آف اسلام “ موجودہ پیشوا لوئیس
فرحان کی قیادت میں پھیل رہا ہے ، اسی طرح پاکستان
کے علاقہ مکران میں ”ذکری“ مذہب سیکڑوں سال سے چلا آ رہا ہے جس
کا آغاز ملا محمد اٹکی نے مہدی کے دعوی سے کیا تھا ، اسی
طرح مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاوی ایک دعوی مہدی
ہونے کا بھی تھا ۔ انھیں جھوٹے دعویداروں میں ایک
نام ریاض احمد گوہر شاہی کا بھی ہے ۔
ان کا نام ریاض احمد ہے ، والد کا
نام فضل حسین مغل تھا جو کہ ایک سرکاری ملازم تھے۔گوہر
شاہی دادا کی طرف نسبت ہے جن کا نام گوہر علی شاہ تھا جو کہ سری
نگر کے رہائشی تھے، وہاں ان سے ایک قتل سرزد ہوا ، پکڑے جانے کے ڈر سے
راولپنڈی آگئے اور نالہ لئی کے پاس رہائش پذیر رہے ، جب انگریزی
پولیس کا ڈر زیادہ ہوا تو فقیری کا روپ دھار کر تحصیل
گوجر خان کے ایک جنگل میں ڈیرہ لگا یا ، جہاں کافی
لوگ ان کے مرید ہو گئے اور جنگل کو نذرانے میں پیش کر دیا
، یہی جنگل ڈھوک گوہر علی شاہ کے نام سے آباد ہوا اور یہیں
ریاض احمد گوہر شاہی ۲۵ نومبر ۱۹۴۱/ میں پیدا ہوئے۔
تعلیم: اپنے گاوں میں
ہی مڈل پاس کیا اور پھر پرائیویٹ طور پر میڑک کیا،
اس کے بعد ویلڈنگ اور موٹر میکینک کا کام سیکھ کر اس کی
دوکان کھولی ؛ مگر اس میں کوئی نفع حاصل نہ ہوا ۔ حصولِ
روزگار کے لیے پریشانی ہوئی تو اس نے سوچا کہ دادا والا
کام دھندہ یعنی پیری مریدی شروع کر دی
جائے۔ اس کے لیے ابتداء خانقاہ کے چکر لگائے، خود لکھتے ہیں :
”کئی سال سیہون کے پہاڑوں
اور لال باغ میں چلے اور مجاہدے کیے مگر گوہرِ مراد حاصل نہ ہوا اور
پھر بری امام اور داتا دربار بھی رہا؛ مگر کوئی فائدہ نہیں
ہوا ۔“
مزید لکھتے ہیں :
” اس کے بعد طبیعت بگڑ گئی ۔
بیس سال کی عمر سے تیس سال تک ایک گدھے کا اثر رہا، نماز
وغیرہ ختم ہو گئی ، جمعہ کی نماز بھی ادا نہ ہو سکی
۔ زندگی سینماوٴں اور تھیٹروں میں گزرتی۔
حصولِ دولت کے لیے حلال و حرام کی تمیز جاتی رہی ۔
بے ایمانی ، جھوٹ اور فراڈ شکار بن گیا۔ (روحانی
سفر ص: ۱۳تا۱۶) پھر ایک
مرتبہ عزم مضبوط کر کے سندھ کے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ
علاقے جام شورو ٹیکسٹ بک بورڈ میں جھونپڑی ڈال کر پیری
مریدی شروع کر دی، کچھ کمزور عقیدہ لوگوں کی آمد
شروع ہو گئی؛ لیکن قریبی یونیورسٹی کے
پرنسپل نے سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا اور جھونپڑی اُکھاڑنے کا
حکم دیا ، ہم نے چپ چاپ اکھاڑ لی (روحانی سفر۔۹،۸)
پھر حیدر آباد، سر ے گھاٹ میں
رہنے لگا ، ۱پنے آپ کو سید
ظاہر کیا جب کہ تھا مغل۔ سندھ کے لوگ چونکہ سید کے نام پہ مرتے
ہیں؛ اس لیے اس کی کافی پذیرائی کی۔
یہیں سے شہرت ملی اور ۱۹۸۰/ میں اس نے کوٹری حیدر آباد ، سندھ ، خورشید
کالونی سے ہی ”انجمن سرفروشانِ اسلام“ کی بنیاد ڈالی
اور اپنے گمراہ کن عقائد کا پر چار شروع کیا ۔ اس کے گمراہ کن عقائد و
نظریات اور باطل دعوے مندرجہ ذیل ہیں ۔
اللہ کی توہین: حضرت
صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ مجبور ہے اور شہ رگ کے پاس ہوتے ہوئے بھی نہیں
دیکھ سکتا ہے ، مزید فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے
موقع پر حضرت علی
کی انگوٹھی اللہ کے ہاتھ میں دیکھی۔
انبیاء کرام کی توہین:حضرت
آدم کو حسد اور شرارتِ نفس کا مریض
قرار دینا ، حضرت موسیٰ کی قبر کو جسدِ اطہر سے خالی
اور شرک کا اڈا باور کرانا اور حضرت خضر کو قاتلِ نفس گردانتے ہوئے ان کی
توہین کرتا ہے۔(روحانی سفر)
جعلی کلمہ : کلمہ میں
محمد رسول اللہ کی جگہ اس ظالم نے گوہر شاہی رسول اللہ لکھوایا۔(
حق کی آواز)
قرآن پاک کے بارے میں لکھا ہے
: تیس پارے ظاہری قرآن پاک اور دس پارے باطنی ملا کر چالیس
پارے ہوئے اور یہ ہم پر عبادات ، ریاضا ت اور مجاہدات کے ذریعے
منکشف ہوئے۔ (حق کی آواز ، ص:۵۴،۵۲)
اسلام کے ارکان خمسہ کی توہین:نماز
، روزہ ، حج ، زکاة اور دیگر عبادات میں روحانیت نہیں ہے،
روحانیت کا تعلق دل کی ٹک ٹک سے ہے ۔(حق کی آواز ، ص:۳) اسلام واحد راہ نجات نہیں ہے ، اس ضمن میں لکھا ہے
کہ روحانیت سیکھو خواہ تمہارا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ،
اور جس نے روحانیت سیکھی چاہے اس نے کلمہٴ اسلام نہیں
پڑھا، وہ جہنم میں نہیں جائے گا ۔ (مینارئہ نور) نیز
لکھتے ہیں کہ عیسائی ، ہندو ، سکھ اور یہودی اگر
روحانیت سیکھ لیں تو بغیر کلمہ پڑھے اللہ تک ان کی
رسائی ہو سکتی ہے۔ (گوہر ، ص:۴، سرفروش پبلی کیشنز)۔ نشہ آور چیزوں
کے حلال ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ بھنگ ، چرس حرام نہیں؛ بلکہ وہ
نشہ جس سے روحانیت میں اضافہ ہو حلال ہے خواہ مخواہ ہمارے عالموں نے
حرام قرار دے دیا۔ (روحانی سفر) عورتوں سے مصافحہ ، معانقہ اور
جسم دبوانا درست ہے ، روحانی سفر میں انہوں نے خود ہی اپنے چلے
میں مستانی سے ملاقات اور اس کے ساتھ شب باشی کی فحش رو ئیداد
تحریر کی ہے ۔ (روحانی سفر، ص:۳۲) اور پھر عورتوں سے معانقہ و مصافحہ کو یہ کہتے ہوئے جائز
قرار دیا ہے کہ مولویوں نے اس کو حرام کیا ہے۔
مہدی ہونے کا دعویٰ:
سوال نامہٴ گوہر میں لکھا ہے :” لوگ اگر ہمیں مہدی کہتے ہیں
تو اصل میں جس کو فیض ملتا ہے وہ ہمیں اتنا ہی سمجھتا
ہے(ص:۸)
اس کے لیے بے سروپا
اور جھوٹے دلائل دیے گئے ہیں؛چنانچہ لکھا ہے کہ میری تصویر
چاند ، سورج اور حجرِ اسود پر ظاہر ہو چکی ہے ، یہ مہدی ہونے کی
علامات میں سے ہے اور امام حرم حماد بن عبد اللہ نے حجر اسود کی تصویر
کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ امام مہدی سے ملتی
جلتی ہے ۔ اس کے علاوہ سیدنا عیسیٰ سے اپنی جھوٹی ملاقات اپنی
کتاب ”حق کی آواز ص:۱۷“ میں ثابت کی ہے۔ان کا ایک مرید
لکھتا ہے کہ دورہٴ امریکہ کے دوران موٴرخہ ۲۹ مئی ۱۹۹۷ء نیو میکسیکو کے شہر طاوٴس کے ایک
مقامی ہوٹل میں حضرت سید نا گوہر شاہی سے حضرت عیسیٰ
نے ظاہری ملاقات فرمائی ،
مرشد نے ۲۸جولائی، ۱۹۹۷ء تک اس کو صیغہٴ راز میں رکھا پھر اس سے
پردہ اٹھانا مناسب سمجھا اور تفصیلات ارشاد فرمائیں ۔(اشتھار
کردہ سرفروش پبلی کیشنز)
اس جھوٹی ملاقات کے بارے میں خود
لکھتے ہیں کہ” حضرت عیسیٰ چونکہ مہدی کے زمانہ میں
وارد ہوں گے ، میری ان سے ملاقات ہونا دلیل ہے، اس بات کی
کہ میں مہدی ہوں ۔“ اس کے علاوہ اولیاء اللہ کی توہین
، حضرت رابعہ بصریہ جیسی پاکباز کو طوائف کہنا ، شریعت
اور طریقت کو الگ کرنا ، حضور کی زیارت کے بغیر امتی
نہ ہونے کا قول کرنا اور حضور سے بالمشافہ ملاقات اور علم سیکھنے کا مدعی
ہونا اور اپنے لیے معراج اور الہام کا دعویدار ہونا، اس کی زہر
افشانیوں میں شامل ہے۔اپنے ان گمراہانہ عقائد و نظریات
اور دعاوی کے اثبات اور ترویج کے لیے اس نے مندرجہ ذیل
کتابیں لکھیں :
روحانی سفر، روشناس، مینارہٴ
نور ، تخفة المجالس، حق کی آواز اور تریاقِ قلب وغیرہ ۔
آج کل مہدی فاوٴنڈیشن
اور مسیحا فاوٴنڈیشن کے نام سے یہ جماعت مصروف عمل ہے اور
اس نام سے ان کی کئی سائیٹس بھی انٹر نیٹ پر موجود
ہیں ۔
اس کے ان گمراہانہ عقائد و نظریات کو دیکھتے
ہوئے اور اس کی صفت دجالیت کو بر وقت بھانپتے ہوئے ملک کے نامور علماء
او ردینی مدارس نے اس پر مرتد و کافر ، ملحد ، زندیق اور ضال و
مضل کا فتویٰ صادر کیا ، ان میں سرِ فہرست جامعہ فاروقیہ
، جامعہ بنوری ٹاوٴن ، جامعہ دار العلوم کراچی ، جامعہ رضویہ
مظہر الاسلام فیصل آباد اور دار العلوم امجدیہ کراچی ہیں ۔اس
کے اس جھوٹ کی تردید اس وقت کے امامِ کعبہ شیخ محمد بن عبد اللہ
نبیل نے بھی کی کہ اس کی تصویر حجر اسود میں
دیکھی گئی ہے اور فرمایا کہ اس وقت پورے حرم میں
حماد بن عبد اللہ نامی کوئی امام نہیں ہے جس کا فرضی نام
اس شخص نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لیا تھا اور اس پر فتویٰ
ارتداد بھی صادر فرمایا۔
اس کی مزید تحقیق کے
لیے سعید احمد جلال پوری صاحب کی کتاب” دورِ جدید
کا مسیلمہ کذاب “محمد نواز فیصل آبادی کی کتاب،” گوہر شاہیت
اور قادیانیت اسلام کی عدالت میں“ اور مفتی نعیم
صاحب کی کتاب ” ادیانِ باطلہ اور صراطِ مستقیم“ کا مطالعہ کریں۔
$$$
------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12،
جلد: 98 ، صفرالمظفر 1436 ہجری
مطابق دسمبر 2014ء